Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

خوشگوار زندگی کے سنہرے اصول The golden rule of a happy life

خوشگوار زندگی کے سنہرے اصول The golden rule of a happy life
انسان جتنا زیادہ بیمار ڈپریشن کی وجہ سے یا ٹینشن کی وجہ سے ہوتا ہے اس سے بڑا وجہ اور کوٸی ہو ہی نہیں سکتا۔کہتے ہے انسان کے زہن میں یا دماغ میں ایک سیکنڈ میں ساٹھ ہزار خیالات آتے ہیں اور جاتے ہیں مطلب ہر ایک ایک سیکنڈ میں ساتھ ہزار سوچ یا خیالات انسانی دماغ سے ہو کر گزرتا ہے لیکن ان میں سے انسانی دماغ میں وی خیالات رہ جاتا ہے جو کر رہا ہو یا قریب ہو یا جس کی طاقت زیادہ ہو۔
انسان جتنا مثبت سوچتے ہیں یا جتنا اسکی سوچمثبت ہے اس کے زہن میں اچھے خیالات آٸیں گے اور وہ اچھے کاموں کی طرف متوجہ ہوں گے اور اگر برے خیالات کا مالک ہے تو اسکا کام بھی برے ہوں گے اس سے صاف ظاہر ہوت ہے کہ انسان کی کامیابی یا ناکامی کی بنیاد انسان کی خیالات یا سوچ سے بنتی ہیں۔
اور اگر ہم زرا غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ ہم خود کتنے اچھے ہیں چونکہ آج کل ہر کوٸی دوسرے کو سدھارنے میں لگے ہوۓ ہیں اس سے بہتر ہے کہ ہم خود سدھر جاٸیں تو ہمیں دیکھ کر کوٸی بھی انسان سدھر سکتا ہے کہنے کا طلب کہنا آسان ہے اور کرنا ہر کام مشکل ہے۔انسان اپنی عادت سے پہچانے جاتے ہیں اور آپ کی عادت اگر اچھے ہوں تو اسکا مثبت اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے اور منفی ہوں تو معاشرے پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔
جب ہم دنیا میں آۓ ہیں تو جینا تو ہے لیکن اگر آپ تین وقت کے کھانے کو جینا کہتے ہیں تو آپ شاید غلط کہہ رہے ہیں چونکہ اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے اور عقل دیا ہے۔تین ٹاٸم کی کھانا ار آپ کا رزق تو اللہ تعالی کسی بھی طرح کہیں بھی آپ کو پہنچا دیتا ہے چونکہ تمام جہانوں کا پالنے والا وہ رب ہے اس کے علاوہ کسی کے اوقات میں نہیں کہ وہ رازق بنے۔ہم اگر انسان ہے تو ہمارے شر سے دوسرے انسانیت کو نقصان نہ پہنچے یہی انسان ہونے کو ثبوت ہے اور اگر آپ کی وجہ سے کوٸی انسان پریشانی میں تو آپ اپنے آپ کو یا ہم اپنے آپ کو انسانوں میں شمار نہیں رکھ سکتے بلکہ ہم سے بہتر تو پھر جانور ہے۔
اگر ہ ایک اچھے انسان بن کے جیے تو واقعی میں آپ سے اللہ تعالی بھی خوش اور آپ سے بنی نوع انسان بھی خوش ہوں گے چونکہ ایک اچھے انسان کی پہچان یہ ہے کہ وہ پیسہ اور  گاڑی یا بنگلہ اور زمین والے کی عزت نہیں کرتا بلکہ ہر انسان کو برابس سمجھتا ہے جبکہ آج کل جس طرح غریبوں کو کچل کر امیروں کی غلامی میں لوگ خود کو اچھا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں وہ انسانیت نہیں بڑواپنی اور دلالی ہے۔
ہم تب تک اچھا انسان نہیں بن سکتا جب تک ہمارے دل میں اللہ تعالی کا خوف نہ ہو اچھے برے کی تمیز نہ ہو۔غریب اور امیر کی پہچان ہو پیسے کو بگوان اور امیروں کو خود پر مسلط نہ کر رکھا ہو جس انسان کے دل میں اللہ تعالی کا خوف ہے وہ اللہ کے زات کے علاوہ نہ کسی سے ڈرتا ہے نہ کسی سے لڑتا ہے نہ کسی کو لڑاتا ہے نہ کسی کاحق کھاتا ہے نہ کسی کو اپنے حق کھانے دیتے ہیں۔

Post a Comment

0 Comments