Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

انجان راستے Unknown Route

 

انجان راستے Unknown Route

ایڈیٹ نانسینس بلڈی فول اندھے اتنی بڑی گاڑی نظر نہیں آتے تمہیں بلڈی باسٹڑ لڑکی نے آتے ہی حمید پر چڑھائی کر دی۔اور حمید کا منہ بے عزتی کی وجہ سے سرخ ہوگیا تھا ۔ عاطف اتنی دیر میں صورتحال کا جائزہ لے چکا کہ ہوا کیا تھا ۔اصل میں ٹیوٹا کار عاطف کی گاڑی سے آگے چل رہی تھی تیز رفتاری سے اور حمید کو ٹیک اوور کرنے کا موقع نہیں دے رہی تھی چنانچہ حمید بھی گاڑی کو ایک مخصوص فاصلہ دے کر اسی رفتار سے چلا رہا تھا۔کہ اچانک تیز رفتاری سے آگے چل رہی گاڑی نے بریک لگا دیے۔ حمید جو کہ تیز رفتاری سے ٹیوٹا کار کے پیچھے گاڑی چلا رہا تھا ۔اچانک ٹیوٹا کے اس طرح بریک لگانے سے بوکھلا گیا اور اس نے بھی پوری قوت سے بریک لگا دئے لیکن اس کی تمام تر کوشش کہ باوجود حمید کی گاڑی ٹیوٹا کار کے پچھلے حصے سے ٹکرا گئی۔ چونکہ حمید نے بروقت بریک لگا دئے تھےاس ٹکر زیادہ تیز نہیں تھی دونوں گاڑیوں کہ بونٹ کو ہلکا سا ہی نقصان ہوا تھا۔ دیکھیے مس غلطی آپ کی ہے آپ نے اچانک بیچ سڑک پر بریک لگا دئے یہ تو سراسر ڈرائیونگ رول کی خلاف ورزی ہے۔ عاطف جو صورتحال کا جائزہ لے رہا تھا معاملے کو بگڑتے دیکھ کر لڑکی سے کہا۔آپ کا ڈرائیور اندھا ہے اسے اتنی بڑی گاڑی نہیں آتی  لڑکی کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔وہ اپنی غلطی ماننے کو کسی صورت بھی تیار نہیں تھی۔ عاطف نے ارد گرد یکھا لوگ تماشہ دیکھنے کیلئے جمع ہونا شروع ہو چکے تھے۔ ٹھیک ہے مس ساری غلطی میرے ساتھی کی ہے۔میں مانتا ہوں اور میں آپ کا نقصان بھی بھرنے کیلئے تیار ہوں ہوں ویسے تو نقصان ہماری گاڑی کو بھی پہنچا ہے۔ عاطف نے معاملے کو رفع دفع کرتے ہوئے کہا۔ مجھے تم جیسے پھٹیچر لوگوں کی بھیک کی ضرورت نہیں اور میں ابھی پولیس کو فون کرنے لگی ہوں۔ لڑکی نے انتہائی توہین آمیز لہجے میں کہا۔اور عاطف نے سختی سے ہونٹ بھینچ لیے لڑکی کافی پڑھی لکھی لگ رہی تھی اور عاطف کو اس سے اس قسم کی زبان استعمال کرنے کی امید نہیں تھی۔لڑکی نے اپنے پرس سے ایک قیمتی سیل فون نکالا اور کچھ نمبر ڈائل کرنے لگی ۔عاطف خاموشی سے کھڑا ہونٹ کاٹ رہا تھا وہ معاملے کو جتنا سلجھانے کی کوشش کر رہا تھا یہ لڑکی معاملے کو اتنا ہی الجھائے چلی جارہی تھی باوجود اس کے کہ غلطی اسی کی تھی ۔ لڑکی سیل فون کان سے لگا کسی سے بات کرنے لگی اور کچھ دیر بعد ایک فاتحانہ مسکراہٹ کہ ساتھ واپس پرس میں رکھ لیا ۔ دیکھئے مس آپ معاملے کو خوامخواہ بگاڑ رہی ہیں جب میں کہہ رہا ہوں میں آپ کا نقصان۔۔۔۔۔۔۔اور عاطف کی بات پوری ہونے سے پہلے ہی پولیس کی ایک گاڑی نفری سمیت وہاں پہنچ گئی ۔اور عاطف کی کشادہ پیشانی پر پہلی بار پریشانی کہ اثرات ابھر آئے،موجودہ صورتحال نے اسے واقعی پریشان کر دیا ۔کال کرتے ہی جس طرح پولیس پہنچی تھی اس سے لگتا تھا کہ لڑکی انتہائی بااثر گھرانے سے تعلق رکھتی تھی اور انتہائی درجے کی مغرور بھی تھی۔پولیس کی گاڑی کہ رکتے ہی گاڑی سے پانچ پولیس والے اتر کر تیزی سے اس طرح ان کی طرف بڑھے جیسے ان کو پل بھر کی بھی دیر ہوگئی تو انتہائی خطرناک اشتہاری مجرم فرار ہونے میں کامیاب ہو جاہیں گے۔جی میڈم صاحبہ کون ہیں وہ لفنگے جنہوں نے آپ کی گاڑی کو ٹکر مارنے کی جرائت کی ۔ایک پولیس اہلکار جس کی کافی موٹی توند نکلی ہوئی تھی اور کندھوں پر لگے پھولوں سے وہ رینک سے انسپکٹر لگ رہا تھا اس نے لڑکی سے پوچھا ۔یہ یہ دونوں لفنگے ہیں انسپکٹر جنہوں نے میری گا ڑی کو نقصان پہنچایا ان دونوں کا ارادہ میری گاڑی کو کچل کر قتل کرنے کا تھا وہ تو میرے میرے نصیب اچھے تھے کے میں بچ گئی ۔لڑکی واقعے پوری طرح مرچ مسالا لگا کر بڑھا چڑھا کر بتاتے ہوئے کہا۔ اور انسپکٹر نے گھوم کر عاطف اور حمید کو ایسے دیکھا کر جیسے وہاں کوئی بین الاقوامی مجرم کھڑے ہوں۔ اوے تو تم دونوں ہو وہ لفنگے جنہوں نے بی بی جی پر قاتلانہ حملہ کیا ۔انسپکٹر صاحب آپ ہماری بات تو سن ۔ اوے چپ کر تم دونوں کے خلاف تو میں اقدام قتل اور دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ دج کروں گا۔ موٹے انسپیکٹر نے عاطف کی بات بیچ میں ہی کاٹتے ہوئے کہا ۔ بی بی جی آپ جائیں اور ملک صاحب کو میرا سلام کہیے گا۔انسپکٹر نے لڑکی سے مخاطب کرتے ہوئے کہا ۔جی ضرور سلام کہہ دوں  گی بابا سے لیکن میں یہاں سے تب جاوں گی جب آپ ان دونوں کو ہتھکری لگا کر گھسیٹتے ہوئے پولیس موبائیل میں ڈال دیں گے۔ لڑکی نے غرور آمیز لہجے میں کہا۔ اوہ یہ تو کوئی بات ہی نہیں ہے بی بی جی میں ابھی ان دونوں کو گھسیٹتا ہوا موبایئل میں ڈلواتا ہوں ۔اوہ رشیدے ان دونوں ہتھکڑی لگا بھئی انسپکٹر نے کہا۔ اور ایک سپاہی جی جی صاحب کہتا ہوا عاطف اور حمید کی طرف بڑھنے لگا اس کے ہاتھ میں ہتھکڑی تھی۔ لڑکی کھڑکی فاتحانہ انداز میں مسکرا رہی تھی جیسے اس نے کوئی بہت بڑا کارنامہ سرانجام دے دیا ہوں۔اور انسپکٹر کھڑا ہوا مونچھوں کو تاو دینے میں مصروف تھا ۔سپاہی ان کو ہتھکڑی لگانے کیلئے آگے آتا جا رہا تھا ۔اب ان کے درمیان صرف دو فٹ کا ہی فاصلہ رہ گیا تھا اور پھر ہتھکڑی ان دونوں کے ہاتھوں میں ہوتی۔ عاطف نے بے اختیار آنکھیں بند کر لی اس ذلت کا اس نے زندگی میں کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔لیکن اب یہ ذلت اس سے صرف ایک فٹ کے فاصلے پر تھی ۔ لیکن عزت اور ذلت اللہ کے ہاتھ میں ہے جسے وہ عزت دینا چاہے اسے کوئی بے عزت نہیں کر سکتا اور جسے وہ ذلیل کرنا چاہے اسے کوئی عزت دے نہیں سکتا ۔ اور اللہ تعالی اسے ذلیل نہیں کرنا چاہتا تھا  ۔

Post a Comment

0 Comments