کل تک جسے دنیا “اسکرین کی جان” کہتی تھی
فیشن شوز، ڈرامے، اشتہارات اور تقریبات کی رونق، اداکارہ حمیرا اصغر
آج لاہور کے ڈیفنس میں اپنے فلیٹ میں اکیلی، مردہ، 21 دنوں تک بےخبر پڑی رہی
کیا یہی ہے وہ دنیا، جہاں شہرت، آزادی اور چمک دمک کے پیچھے بھاگتے ہوئے ہم ماں باپ، دین، رشتے، اور اقدار تک کو قربان کر دیتے ہیں ؟
جب جوانی تھی، حسن تھا، شہرت تھی سب ساتھ تھے
لیکن جونہی وقت بدلا، کام کم ہوا، پیسہ رُکا، چہرے پر تھکن آئی
تو سب نے نظر پھیر لی
کوئی نہ پوچھنے آیا
21 دن تک کوئی دروازہ کھٹکھٹانے والا نہ تھا
فلیٹ سے اٹھنے والی بدبو نے آخرکار پولیس کو بلوا دیا
نہ کوئی رشتہ دار، نہ کوئی دوست بس مالک مکان کرایہ لینے آیا
یہ لمحہ صرف دکھ نہیں دیتا، جھنجھوڑ دیتا ہے۔
یہ شوبز، یہ آزادی، یہ جدید طرزِ زندگی صرف تب تک تمہیں گلے لگاتی ہے
جب تک تم اور تمہارا چہرہ "قابلِ استعمال" ہوتا ہے
جب مقصد پورا ہو جاتا ہے، تو تمہیں ایک بند کمرے میں تنہا سڑنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے
آج ہماری نوجوان نسل ان کو رول ماڈل بناتی ہے جن کا اندر مرجھایا ہوا ہے
جو اپنی زندگی کے شب و روز سے تنگ ہیں جگہ جگہ ہریسمنٹ ہے جگہ جگہ بلیک میلنگ ہے
نواج بچیاں بچے "میرا جسم میری مرضی" اور "میں اکیلا کافی ہوں" جیسے نعرے لگا کر اپنے سب سے بڑے سہاروں ماں باپ، خاندان، اور دین سے منہ موڑ لیتے ہیں
لیکن سچ یہ ہے:
زندگی کا سب سے بڑا سہارا خدا اور اپنے لوگ ہوتے ہیں
یاد رکھیں!
صرف مردہ جسم کو نہیں، زندہ دل کو بھی کندھے کی ضرورت ہوتی ہے
کسی کو اس لیے مت چھوڑیں کہ وہ "پُرانا خیال" رکھتا ہے
وہی پرانے لوگ مرنے پر کاندھا دیتے ہیں،
اور تنہا مرنے سے بچاتے ہیں۔
یہ دنیا تماشہ نہیں، عبرت کی جگہ ہے۔
رشتوں کو چھوڑ کر آزادی کے خواب مت دیکھو
کیونکہ یہی آزادی تمہاری بربادی ہے
یہ دنیا وفا کرنا نہیں جانتی بلکہ استعمال کرنا جانتی ہے
0 Comments