نوٹ: (سلفائیڈ اور برومائیڈ کیمسٹری میں کیمیکلز کے نام ہیں یہاں فرضی گروہ کی نشاندھی کیلئے استعمال کیا جارہا ہے۔)
ہمیں ایک تیسری قسم ائیوڈائیڈ کی درکار ہے جو ان دونوں سلفائیڈ اور برومائیڈ کے انداز سے اپکو دیکھے۔
خیر سکردو کے سماجی معاملات میں سلفائیڈ اور برومائیڈ کے نظریات الگ الگ ہیں۔
سکردو گلگت بلتستان کا وہ واحد ضلع ہے جہاں لڑکوں کا ہم جنس کے ساتھ بڑھتی ہوئی جنسی رغبت شہاب ثاقب کی طرح حرکت میں تھی، ہے اور رہے گی۔
پہلی قسم سلفائیڈ ہے یہ بیچارا خام خیالی میں رہتا ہے یہ خارجی مشاہدات کرتا ہے اور سکردو کے بارےمیں روایتی نظریات رکھتا ہے۔ جیسے کہ امن و محبت کی سر زمیں، امن کا داعی، اخوت اور ہمدردی کی اغوش، سرزمین ولایت، وغیرہ وغیرہ۔ ان کا ماننا ہے کہ اس سرزمین پر چوری، زنا، قتل، اغوا برائے تاوان، زبردستی جنسی زیادتی جیسی برائیاں ہونہیں سکتی یا ہونا محال ہے۔ اگر ہو بھی جائے تو پھر ان کو حیرانگی ہوتی ہیں۔ اب جناب سلفائیڈ کو سمجھائے کون کہ آپکی ثقافت اب ملاوٹی ثقافت بن چکی ہے. یہاں مذکورہ ساری برائیاں 1990 کے دہائی سے ہورہی ہیں۔
دوسری قسم برومائیڈ کی ہے جو سکردو کے قدیم اور ثقافتی روایات کو نہ صرف ٹھوکر مارتا ہے بلکہ ان ساری برائیوں کو خوشی خوشی کرنے کے بعد بڑے فاتحانہ انداز میں کسی کو خاطر میں نہیں لاتا اور ان برائیوں کا اقرار اپنے حلقہ احباب میں فخریہ انداز میں کرتا ہے۔ جناب والا ایک زمانہ تھا جہاں گناہ کرنے کے بعد کسی سے ذکر تک نہیں کرتا تھا، لیکن اب برومائیڈ سر عام دوستوں کے ساتھ shared sex (اجتماعی زنا کاری میں حصہ داری), شراب اور کباب کا بھی بندوبست اسی ایک رات میں ایک ساتھ ہوجاتا ہے۔ یہ آجکل برومائیڈ اور پاکستان کے دوسرے شہروں میں موجود سکردو کے برومائیڈ گروپ کا پسندیدہ مشغلہ ہے۔
حضور والا مخالف جنس سے جنسی رغبت تو سنتے آئے ہے یہ تو ایک قدرتی عمل ہے لیکن برومائیڈ کا کہنا ہےکہ ہم جنس کے ساتھ بھی محبت سے لے کر ڈیٹنگ تک، ساتھ بیٹھ کر پیار کی باتیں کرنے سے زنا تک، عشق سے لے کر ان کی غم فراق میں ساری رات جاگنے تک کا پورا پراسیس بھی لڑکی سے کی جانے والے تعلقات سے کسی طرح سے بھی کم نہیں بلکہ ان کو یہ زیادہ پرکشش لگتا ہے۔
شائد ہم میں سے اکثر اسوہ کیڈٹ کالج اسلام آباد میں ہونے والے برومائیڈ کے نرالے انداز سے غافل ہیں۔ جہاں برومائیڈ کا ایک جمع غفیر ہر دور میں موجود رہتا ہے کیونکہ نئے آنے والے طلباء اپنے سینئر سے وراثت میں یہ چیز لے لیتے ہیں کہ کیسے نئے آنے والے طلباء کو مخصوص انداز میں girl friend کی طرح تعلقات میں رکھنا ہوتا ہے۔ اب ایسے "انوکھے گرل فرینڈ" کیلئے یہاں برومائیڈ نے ایک مخصوص اصطلاح "چوزہ"عام کیا ہوا ہے۔ یہ لفظ چوزہ سب سے زیادہ سکردو میں استعمال ہوتا ہے اب دھیرے دھیرے دوسرے وادیوں میں بھی سرایت کرتا جارہاہے۔ میرا اصل مقصد برومائیڈ کا تھوڑا سا پوسٹ مارٹم کرنا ہے، لہذا کئی سالوں سے ایک چیز عام ہے کچھ لڑکے جنسی گینگ کی شکل میں کسی ایک لڑکے کو پہلی بار زبردستی جنسی زیادتی کا شکار بنا دیتے ہیں۔ پھر ویڈیو بنا دیتے ہیں۔ یہاں ایک بات واضح کرنا چاہوں گا ویڈیو بنانے کے دو مقاصد ہوتے ہیں۔ پہلی صورت یہ ہے کہ ایک کسی لڑکے کے ساتھ بنتی نہیں تو پنگہ لینے کیلئے ویڈیو بناتے ہیں تاکہ وہ کبھی اپنی اوقات سے زیادہ گردن چوڑا نہ کرے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کچھ لڑکوں پر واقعی ان جنسی گینگ کی نظر ہوتی ہے کہ وہ ہمیشہ کیلئے ان کی جنسی خواہشات کی تکمیل کیلئے ان سے ملتے رہے۔ تاکہ وہ ویڈیو کی ڈر سے آگلی بار بھی ان کی جنسی ضروریات پوری کرے۔ یہ
" Made in Baltistan sexual gangs"
اب پوری طرح سے پاکستان کے دوسرے شہروں میں بھی اپنے ناپاک عزائم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان گینگز میں یونیورسٹی اور کالجز کے طلباء، جاب کرنے والے ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔ اب شراب،کباب اور زنا کی مجموعی پارٹی اجتماعی طور پر کرنا ان کا پیشہ بنا ہوا ہے اور اگر کوئی غلطی سے بھی سوچ رہا ہو کہ کل کے سانحے پر ہزاروں سے زائد پوسٹیں اور مجرمان کی فوٹوز سوشل میڈیا پر شئیر ہونے کی وجہ سے مجرمان کو پچھتاوا ہورہا ہے تو یہ آپکی بھول ہے۔ جناب کوئی اپنے پروفیشن کو لے کے شرماتا نہیں اور یہ ان گینگز کا پروفیشن ہے تو وہ کیوں شرمائے؟
1 Comments
Bohot khoob
ReplyDelete