Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

Mirza Ghalib Life Story In Urdu

Mirza Ghalib Life Story In Urdu

مرزا اسداللہ خان غالب کو کون نہیں جانتا ان کا شمار اردو زبان کے سب سے بڑے شاعروں میں ہوتا ہے۔انیسوی صدی کو غالب کی صدی کہا جاتا ہے۔مرزا اسد اللہ خان غالب ١٧٩٧ کو عبداللہ بیگ کےہاں اگرا میں پیدو ہوۓ ۔ان کا اصل نا اسد اللہ بیگ تھا۔غالب کا کمال یہ تھا کہ وہ انسانی نفسیات کو گہراٸی میں جا کراس سلیقے سے بیان کرتے تھے کہ سننے والا متاثر ثر ہوۓ بنا نہیں رہ پاتا۔مرزا غالب مصیبتوں کو ہراتے ہراتے بڑے ہو گیے تھے۔ان کو بچپن سے بڑے بڑے مصاٸب کافراط سامنا کرنا پڑا۔بچپن میں ہی وہ اپنے اپنے والد کے ساۓ سے محروم ہو گٸے جس کے بعد ان کی پرورش کی ذمہ داری ان کے چچا نصراللہ بیگ نے کیے لیکن جب غالب کی عمر آٹھ ٨ سال ہو گٸی تو ان کے چچا بھی اس دنیاے فانی سے کوچ کر گٸے ۔بہت ہی کمسِنی قریبا گیارہ سال کے عمر میں مرزا غالب نے شعر و شاعری شروع کر دی تھی۔غالب کے آباو اجداد کا تعلق وسطی ایشیا سےتھا اور فارسی زبان اس وقت برصغیر میں شاہی دربار سے لے کر تمام اشرفیا اور تہزیب وتمدن کے گہواروں میں اہم تھی۔یہی وجہ ہے کہ غالب کے شاعری کا بڑا حصہ فارسی میں بھی ہے.اردو شاعری غالب کی سرپرستی میں اپنے عروج پر پہنچی.غالب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوٸے اکثر اردو شاعری کے روایتی قوانین کو بالاٸی تک لا کر رکھ دیتے تھے .اس وجہ سے ان کے مخالفت کرنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد تھی.مرزا غالب اپنی شاعری میں مذہب سے متعلق خیال کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بھی بنے.ان کا زمانہ بڑا شورش کا زمانہ تھا انہوں نے مسلمانوں کی ایک عظیم سلطنت کو برباد ہوتے ہوٸے اور باہر سے آٸی ہوٸی انگریز قوم کو ملک کے اقتدار پر جاتے ہوٸے دیکھا.غالباً یہی وہ پس منظر ہے جس نےان کی نظر میں گہراٸی اور فکر میں وسعت پیدا کیں. جب ان کے سر سے اپنے والد اور چچا کا سایہ اٹھ گیا تو یتیم اور بے آسرا بچے کو نواب احمد بخش خان نےان کی خاندان کے لٸے انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرا دیا.
1810 ع میں تیرہ سال کی عمر میں ان کی شادی نواب احمد بخش کے چھوٹے بھاٸی مرزا انیس بخش خان کی بیٹی عمرا بیگم سے ہوٸی.شادی کے بعد انہوں نے اپنے آباٸی وطن کو خیر باد کہہ کر دہلی میں مستقل رہاٸش اختیار کر لی.شادی کے بعد مرزا کے اخراجات میں اضافہ ہواجس کی وجہ سے ان کو مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا یہاں تک کی ان کو قرضے لینے پڑے اور دن بہ دن قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا.ان مالی مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لٸے انہوں نے قلعے میں ملازمت اختیار کر لی.1850 ع میں بہادر شاہ ظفر نے مرزا غالب کو #__نجم الاولید__ و بیرو ملک نظام جنگ کا خطاب عطا کیااور خاندان تیموری کی تاریخ لکھنے پر معمور کر دیا اور 50 روپےماہوار وظیفہ بھی مقرر ہوا.غدر کے بعد مرزا کی سرکاریپنچھن بھی بند ہوگٸی جنانچہ 1852 ع کے بعد مرزا غالب نے نواب یوسف علی خان والی رامپور کو امداد کےلٸے لکھا .انہوں نے سو روپے ماہوار وظیفہ مقرر کردیا جو مرزا غالب کو تا دم حیات ملتا رہا.مرزا غالب کی کسم پسی کا اندازہ اس خط سے لگا سکتے ہے جس میں انہوں نے برسات کا زکر کرتے ہوٸے کچھ یوں لکھا تھا.
”دیوان خانے کاحال مین سرا سے بدتر ہے میں مرنے سے نہیں ڈرتا فقد ان رحمت سے گھبرا گیا ہوں چھت چھلنی ہوگٸی ہے اب یعنی بادل دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنے برستی ہے“اپنی غموں کو دور کرنے کےلٸے مرزا غالب کثرت سے
Mirza Ghalib Life Story In Urdu

شراب نوشی کا سہارا لیتا تھا
غدر کے بعد مرزا غالب بھی قید ہوگٸے ان کو جب وہاں کے کمانڈر آفیسر کرنل براون کے سامنے پیش کیا گیا تو کرنل نے مرزا غالب کی وضع قطع دیکھ کر کہا آدھا مسلمان ہوں کرنل بولا کیا مطلب تو بولا جناب شراب پیتا ہوں سود نہیں کھاتا .شراب نوشی کی وجہ سے ان کی صحت دن بہ دن خراب ہوتی گٸی یہاں تک کی آخر میں وہ اکثر بے ہوش رہتے تھے اور مرنے سے پہلے ان پر بے ہوشی طاری ہوگٸی اور اسی حالت میں 15 فروری 1869ع کو اس دنیاٸے فانی سے چل بسے . ان کو دہلی میں سپرد خاک کر دیا گیا. اور آج بھی  مرزا اسداللہ خاں غالب کا مزار چادریں اور پھول فروخت کرنے والوں،بریانی کے ریڑوں ،قصایٸوں اور نانواٸیوں کے دکانوں کے درمیان موجود ہے۔

Post a Comment

0 Comments