Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

دل بےقرار

ناول: دل بے قرار 
رائٹر: پلوشہ صافی
دل بے قرار

 
قسط: 06

❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌❌

نئے سال کا آغاز ہوچکا تھا۔ عرشیہ ایم بی اے کے تیسرے سمسٹر میں تھیں اور اسے آرجے پیغام کا شو سنتے تقریبا سات ماہ ہونے والے تھے۔ یونیورسٹی کے فارغ اوقات میں بھی ہینڈفری کانوں میں لگائیں یوٹیوب اور انسٹاگرام پر آرجے پیغام کے پچھلے شوز سنتی۔ پڑھائی اور کورٹ کیس کے علاوہ یہی اس کا مشغلہ رہا۔ 

اس دن وہ سفید چکن کاری کا کرتا شلوار پہنے ڈوپٹے کو  سر پر ٹکائیں ہلکے میک اپ میں خوبصورت پر کشش دوشیزہ لگ رہی تھیں۔ یہ اس کی تیسری پیشی تھی اور آج کے پیشی میں کمپنی کا فیصلہ ہونے والا تھا۔ کورٹ کے باہر میڈیا کا ہجوم کھڑا تھا۔ سب کے لیے باپ بیٹی کے مابین تکرار لطف اندوز سرگرمی تھی۔ 

"کیا لگتا ہے میم۔۔۔۔۔ آج کورٹ کس کے حق میں فیصلہ کریں گی۔۔۔۔" ایک رپورٹر نے اسے روک کر سوال کیا۔ 

"مس عرشیہ۔۔۔۔۔۔ آپ کو کیا لگتا ہے کیا آپ کے ڈیڈ تابش درانی اپنے پاور کا استعمال کر کے کمپنی واپس لیں سکتے ہیں۔۔۔۔۔" دوسری رپورٹر نے اپنا مائک اس کے آگے کیا۔ 

"انسان کو اپنے حق کے لیے لڑنا چاہیئے۔۔۔۔ چاہیں مد مقابل کوئی بھی ہو۔۔۔۔ میں نے بس اپنے حق کی مانگ کی ہیں۔۔۔۔ وہ کمپنی دادا جان نے میرے حصے میں لکھی ہے تو مجھے ہی ملے گی۔۔۔۔" عرشیہ پر اعتماد انداز میں بزنس وومین کے طور پر خود مختاری سے ایک ایک کا جواب دینے لگی۔ 

"درانی ہارڈووڈ کمپنی کا صنعتی اداروں میں کافی نام ہے۔۔۔۔۔ اگر وہ کمپنی آپ کی ہوئی تو کیا آپ اسے مزید اونچائی تک پہنچا سکیں گی۔۔۔" ایک اڈھیر عمر رپورٹر کے سوال پر باقی سب خاموش ہوگئے۔ 

"میری کوشش درانی ہارڈووڈ پروڈکٹس کو دنیا کے ایک ایک کونے تک پہنچانے کی ہیں۔۔۔۔ اور اس کے لیے میں نے ابھی سے منصوبہ بندی کر لی ہیں۔۔۔۔۔ کمپنی میری ہوجائیں  تو باقی کے ترقیاتی خبریں آپ کو وقتاً فوقتاً ملتی رہیں گی۔۔۔۔" آخری جواب دے کر گلاسس آنکھوں سے اتارتی وہ کورٹ روم کے اندر چلی گئی۔ 

اسی دوران تابش صاحب بھی گاڑی سے اترتے نظر آئیں تو رپورٹرز نے انہیں گھیرنے کے لیے قدم بڑھائیں پر وہ سخت سیکیورٹی کے دائرے میں میڈیا کو نظر انداز کرتے کورٹ روم میں چلے گئے۔ 

توقع کے مطابق فیصلہ عرشیہ کے حق میں ہوا۔ اس کی خوشی قابل دید تھی۔ تابش صاحب اپنے ہار پر اداس نہیں بلکہ عرشیہ کے جیت پر خوش تھے۔ ہاں البتہ اتنی بڑی اور کار آمد کمپنی ہاتھ سے جانے کا دکھ ضرور تھا۔ لیکن اس بات پر مطمئن بھی تھے کہ عرشیہ ان کے احکامات کے خلاف کمپنی میں تغیرات نہیں لائیں گی۔ 

"کانگریچولیشن عرشیہ۔۔۔۔ آئی ایم ہیپی فور یو۔۔۔۔" انہوں نے کورٹ روم کے باہر اپنی بیٹی کو گلے لگایا۔ 

"مجھے آپ کے زبانی یہ الفاظ سن کر اور بھی زیادہ جوشی ہورہی ہے ڈیڈ۔۔۔۔۔ اب ہم بزنس رائول بھی بن گئے ہیں۔۔۔۔" عرشیہ نے ان کے گرد بازووں کا حصار بنائے ہوئے کہا۔ 

"تمہیں بزنس میں ہرانے کا اور مزا آئے گا۔۔۔۔ " انہوں نے چیلنج کرنے کے انداز میں جواب دیا۔ 

"کون کس سے ہارتا ہے۔۔۔۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا۔۔۔۔ ابھی تو مجھے آپ کی ہار اور اپنی جیت کی خوشی منانی ہیں۔۔۔۔" عرشیہ نے ان کے حصار سے سر اٹھا کر آبرو اچکائے۔ 

"ہاہاہا۔۔۔۔ لیٹس ہیف اے پارٹی۔۔۔۔" تابش صاحب کھلکھلا کر ہنس پڑے۔ 

ان دونوں کی گفتگو سے محظوظ ہوتی سیرت بیگم دوسری سیڑھی پر کھڑی تھی۔ عرشیہ کے قریب آتے انہوں نے اسے خود سے لگایا اور پھر تابش صاحب کے جانب مڑی۔ 

"غلطی کر رہے ہو تابش۔۔۔۔۔ عرشیہ کو تم ابھی تک سمجھے نہیں ہو۔۔۔۔۔ وہ تمہاری کمپنی ڈبا دیں گی۔۔۔۔" سیرت بیگم نے وارنگ دینا چاہی۔ 

"سیرت۔۔۔۔ شاید تم۔۔۔۔ ابھی تک مجھے سمجھی نہیں ہو۔۔۔۔" انہوں نے جتاتے ہوئے ایک آبرو اٹھا کر سیرت کو دیکھا۔

"میں نے اسے کمپنی مستقل طور پر نہیں دی۔۔۔۔ بابا کے وصیت میں صاف لکھا ہے۔۔۔۔۔۔ عرشیہ کے شادی کے بعد اس کمپنی کے آدھے سے زیادہ شئیرز اس کے خاوند کے ہوجائیں گے۔۔۔۔ اور تب میں اس کے خاوند سے وہ کمپنی واپس اپنے نام کروا لوں گا۔۔۔۔" ان کے ارادے نیک نہیں ہے یہ سیرت بیگم کو سمجھنے میں دیر نا لگی۔ 

"اور اس کا خاوند۔۔۔۔ بھلا ایسا کیوں کرے گا۔۔۔۔" سیرت بیگم ہاتھ جھلا کر استحزیہ ہنسی۔ 

"کیوں کہ۔۔۔۔ وہ میرا وفادار ہوگا۔۔۔۔ کمپنی لینے میں تو عرشیہ نے اپنی من مانی کر لی۔۔۔۔ مگر شادی وہ میرے چنے ہوئے لڑکے سے کرے گی۔۔۔۔" تابش صاحب کے بے لچک لہجے سے سیرت بیگم گھبرانے لگی مگر بظاہر خود کو کمپوز رکھا۔ 

"مجھے نہیں لگتا۔۔۔۔ اب وہ کبھی بھی تمہاری یا میری سنے گی۔۔۔۔۔۔ " سیرت بیگم در حقیقت عرشیہ کے مستقبل کے لیے پریشان ہورہی تھی۔ 

"ضد میں۔۔۔۔ میں اس کا باپ ہوں سیرت۔۔۔۔۔ جو ٹھان لوں وہ کر کے ہی دم لیتا ہوں۔۔۔۔" تابش صاحب انہیں گھور کر سیڑھیاں اتر کر جانے لگیں۔

"اگر ایسا ہے تو پھر میں اس کی ماں ہوں۔۔۔۔ مجھے یہ شرط بتا کر تم نے غلطی کر دی تابش۔۔۔۔۔" سیرت بیگم انہیں جاتے دیکھتی سوچ میں پڑ گئی۔ 

اس سے پہلے تابش صاحب عرشیہ کو کسی کے نکاح میں دیتے انہوں نے اپنے سوشل سائکل میں کنوارے لڑکوں کے نام سر فہرست کرنا شروع کر دیئے۔ 

               ◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

اس رات اورہان کے گھر کو لائٹس اور چمکدار جالی سے سجایا گیا تھا۔ انزیلہ کی گریجویشن پارٹی میں سب ہی دوست و احباب مدعو تھے۔ پیغام بلیک قمیض شلوار پر بلیک ویسٹ کوٹ اور پیشاوری چپل زیب تن کئے۔ شیو اور بال نفاست سے بنائے لان میں داخل ہوا۔ 
انزیلہ مہمان نوازی کرتے لان میں موجود اقارب سے مل رہی تھی جب پیغام پر نظر پڑی۔ ایک پل کو وہ اس پر سے نظریں نہیں ہٹا پائی اور اگلے پل خود کو کمپوز کرتے گلابی ہونٹوں پر بڑی سی مسکراہٹ سجائے اس کے پاس آئی۔ 

"گریجویشن بہت مبارک ہو۔۔۔۔" پیغام نے اسے مبارکباد کہتے مرزا غالب کے غزلوں کی مشہور کتاب بطور تحفہ پیش کی۔

"تھینکیو۔۔۔۔۔ یہ میرے فیوریٹ شاعر ہیں۔۔۔۔۔" انزیلہ کتاب لیتے چہک اٹھی۔ 

"میرے بھی۔۔۔۔۔" پیغام نے پلکیں جھپکاتے ہم پسند ہونے کا اظہار کیا۔ 

انزیلہ بلش کرتے نظریں جھکا گئی۔ 

"ہماری پسند کتنی ملتی ہے نا۔۔۔۔" انزیلہ اسے پارٹی کے سمت لانے لگی۔ 

"کبھی کبھار مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے۔۔۔۔" پیغام مے سجاوٹ دیکھتے ہوئے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ 

دونوں ساتھ ساتھ چلتے شعر و شاعری کی ایک جیسی پسند پر باتیں کرنے لگیں۔ لان کے ایک سائیڈ پر مشروبات اور بار بی کیو کا انتظام کیا ہوا تھا۔ اور دوسرے سمت چیئرز اور ٹیبل رکھیں گئے تھے۔ 
اورہان انتظامات دیکھنے میں مصروف تھا۔ پیغام، انزیلہ سے بات مکمل کر کے اس کی مدد کرنے چلا آیا۔ اسے وہاں دیکھ اورہان بہت خوش ہوا۔ 

"تھینک گاڈ تم آئے۔۔۔۔۔ ورنہ تم نے تو کسی محفل میں نا جانے کی قسم کھا رکھی ہے۔۔۔۔" اورہان نے مصنوعی خفگی دکھاتے ہونہہ کیا۔ 

"ہہہہہ۔۔۔۔ وہ تو ہے۔۔۔۔ قسم تو اپنی جگہ اب بھی برقرار ہے۔۔۔۔ بس تمہاری بات الگ ہے۔۔۔۔۔ تمہارے فیملی ڈنر میں نا آکر اپنے روزی پر لات مارنی ہے کیا۔۔۔۔" پیغام نے شرارتی انداز میں اس کے گلے میں بازو ڈالا۔ 

ان دونوں کا ہنسی مذاق یوں ہی چلتا رہا۔ انزیلہ اپنے فرینڈز کے دائرے میں کھڑے ایک آدھ مرتبہ پیغام پر نظر ڈالتی اور پھر سے باتوں میں مگن ہوجاتی۔ شام یونہی اپنے سفر پر رواں دواں رہیں۔ 

دوسری طرف عرشیہ کلب میں فرینڈز کے ہمراہ اپنی جیت کی خوشی منانے میں مشغول تھی۔ ڈسکو لائٹ اور میوزک سے رات رنگین منظر پیش کر رہی تھی۔ بلیک پینٹ اور وائٹ ٹاپ پہنے لمبے بال کھلے چھوڑے بلیک ہیل میں چلتی وہ ڈرنک بار کے چئیر پر بیٹھ گئی۔ 

"اتنے ایملیز کئے۔۔۔۔۔ تم نے ایک بھی ایمیل نہیں پڑھا۔۔۔۔۔ کتنی دفعہ کال ملائی پر ہمیشہ نمبر بزی رہتا ہے۔۔۔۔۔ تم سے کانٹیکٹ کیسے کروں پیغام۔۔۔۔۔ کسی بھی جگہ تمہارا پرسنل ڈیٹا نہیں ہے۔۔۔۔۔ پتا نہیں تم کہاں رہتے ہو۔۔۔۔۔ کیسے دکھتے ہو۔۔۔۔  مجھے تم سے ملنا ہے۔۔۔۔ تم سے بات کرنی ہے۔۔۔۔ اپنے پیار کا اظہار کرنا ہے۔۔۔۔۔ میں تم سے کیسے ملوں پیغام۔۔۔۔  " سامنے پڑے مائع کو دیکھتی کھوئے انداز میں پیغام سے مخاطب ہوئی۔ 

بیک گراؤنڈ میں چلتا میوزک بہت آہستہ ہوتا گیا۔ 

"تم سے ملنے کا بہت دل کرتا ہے۔۔۔۔ تم میرے سامنے رہو۔۔۔۔ مجھ سے پیار بھری باتیں کرو۔۔۔۔ اپنے میجیکل انداز میں شاعری سناو۔۔۔۔۔۔ اسسسسس۔۔۔۔" حسرت سے آہ بھری۔ 

ماحول سے گم وہ پیغام کی یادوں میں کھوئی ہوئی تھی جب آغر نے چونکا دیا۔ 

"ہے عرشیہ۔۔۔۔ لیٹس ڈانس۔۔۔۔۔" اس نے اچھلتے ہوئے اسے آفر دی۔ 

"آغر۔۔۔ تم نے تو ڈرا دیا مجھے۔۔۔۔۔" عرشیہ سینے پر ہاتھ رکھے تیز تیز سانس لے رہی تھیں۔ 

"کم آن یار۔۔۔۔ تمہاری پارٹی ہے۔۔۔۔ اور تم یہاں بیٹھی ہو۔۔۔۔۔ لیٹس انجوائے۔۔۔۔۔" اس نے عرشیہ کو ہاتھ سے پکڑ کر ڈانس فلور پر کھینچا۔ 

اس کے ساتھ آتے عرشیہ شر ا ب کی بوتل اٹھائے فلور پر آگئی اور ڈانس کرتے ہوئے پینے لگی۔ 

اورہان کے گھر ڈنر اچھے سے اپنے اختتام کو پہنچا۔ سب اپنے اپنے گھروں کو جانے لگیں۔ چونکہ نئے سال کا آغاز تھا اور عید بھی کو تھی تو پیغام اور اورہان مہمانوں کے جانے کے بعد کافی دیر منور صاحب کے ساتھ بیٹھے ریڈیو کے پروگرامز میں کچھ تبدیلیاں لانے پر اظہار رائے کرتے رہیں۔ تقریباً رات ڈیڑھ بجے کے قریب پیغام کو وقت کا احساس ہوا اور گھر جانے کے لیے رخصت ہوا۔ اورہان نے اسے گھر ڈراپ کرنے پر کافی زور دیا مگر پیغام نہیں مانا اور اکیلے جانے پر ہی اکتفا کیا۔

وہیں دوسرے جانب عرشیہ کی پارٹی ختم ہوگئی تھی۔ وہ لڑکھڑاتے ہوئے اپنے کار میں جا بیٹھی۔ اس نے آج کافی زیادہ پی لی تھی اور رات کے اس پہر پورا شہر تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا ہر سوں خاموشی کا راج تھا۔ ایک خالی سڑک پر ڈرائیو کرتے ہوئے عرشیہ کا سر چکرانے لگا اور اس کی کار فٹ پات پر چڑھ کر درخت سے ٹکرا گئی۔ 

"اااہہہہہہ۔۔۔۔۔" سر اسٹیرنگ سے ٹکرا جانے کے باعث وہ کراہ اٹھی۔ 

اپنی پیشانی سہلاتے وہ کار کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی پر چونکہ وہ نشے میں دھت تھی اور سر پر چوٹ بھی لگ گئی تھی اس لیے زیادہ آگے تک چل نا سکی اور بیچ سڑک پر بے ہوش ہو کر گر پڑی۔ 

اتفاق سے پیغام اسی راستے سے گزر رہا تھا جب ایک جوان خوبصورت لڑکی کو یوں سڑک پر بے ہوش پایا۔ فٹ پات پر چڑھی درخت سے ٹکرائی کار دیکھ کر وہ فوراً مدد کو پہنچا اور عرشیہ کو سیدھا کیا۔ 

"ہیلو۔۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔۔" اس نے عرشیہ کے گال پر تھپتھپایا۔ 

عرشیہ کا سر پیغام کی بازو پر ٹکا تھا۔ اس کے ماتھے پر آئی برو کے پاس ہلکا نیل پڑ چکا تھا۔ ایک شناسا سی آواز پر بمشکل وہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسے اندھیرے میں کالا ہولیہ سا نظر آیا مگر چہرے کی تصحیح نہیں کر سکی۔ اسے زندہ دیکھ کر پیغام نے سکون کا سانس لیا اور سہارا دے کر کھڑا کرنے لگا۔ اس میں از خود کھڑے ہونے کی سکت نا تھی اس لیے اس نے عرشیہ کا بازو اپنے گلے میں ڈالے اس کے کندھوں اور گھٹنوں کے نیچھے بازووں پھیلا کر اسے گود میں اٹھا لیا۔ بار بار بند ہوتی آنکھوں سے وہ اس مضبوط وجود کا صاف عکس دیکھنے کے جتن کرتی رہی مگر نشے کے باعث نظر دھندلی رہی۔ 
پیغام نے اسے کار کی سیٹ پر بٹھایا اور آگے کا لائحہ عمل سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے پیروں کے پاس گرے موبائل پر کال آنے لگی۔ پیغام نے جھک کر موبائل اٹھایا اور کال موصول کر کے کان سے لگا لیا۔ 

"عرشیہ کہاں ہو تم۔۔۔۔ اتنی دیر ہوگئی ہے۔۔۔۔۔ تابش کتنی دفعہ تمہارا پوچھ چکے ہیں تمہیں پتا بھی کتنے غصے میں ہے وہ۔۔۔۔ جلدی گھر آو۔۔۔۔"  سیرت بیگم دانت پر دانت جمائے غرائی تھی۔ 

تابش کے نام پر پیغام کے دماغ میں ایک منظر سا ابھرا تھا۔اس نے بے یقینی سے کار کے سیٹ پر بے سد پڑی لڑکی کے چہرے کو دیکھا۔ اس کے نین نقش اس کے شہر کے مشہور انڈسٹریلسٹ مسٹر تابش درانی سے نسبت کا ثبوت دے چکے تھے۔ 

"جی۔۔۔۔ ان کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔۔۔۔۔" پیغام نے کنکارتے ہوئے اطلاع دی۔ 

"واٹ۔۔۔۔ کہاں پر۔۔۔۔۔ " سیرت بیگم خاصی پریشان ہوئی۔ 

"گھبرانے کی بات نہیں ہے۔۔۔۔ وہ ٹھیک ہے۔۔۔۔ بس ہلکی سی چوٹ لگی ہے۔۔۔۔۔ " پیغام نے انہیں دلاسہ دیا اور اس جگہ کا ایڈریس بتانے لگا۔ 

"ہمممم  is she  d r u n k۔۔۔۔ " سیرت بیگم احتیاطی طور پر مستفسر ہوئی۔

پیغام کچھ دیر خاموش ہوا۔ اس نے عرشیہ کا بغور مطالعہ کرتے سر تا پیر اسے دیکھا۔ 

"یس۔۔۔۔۔ " ایک لفظی جواب دیا۔ 

سیرت بیگم نے لب بھینجے سر پر ہاتھ مارا تھا۔

"اوکے۔۔۔۔ میں آتی ہوں۔۔۔۔۔ " ان کا لہجہ سخت ہوگیا۔ 

پیغام نے کال کاٹ کر موبائل کار کے ڈش بورڈ پر رکھا اور جانے لگا کہ ٹھٹک کر رک گیا۔

"پیغام۔۔۔۔۔" عرشیہ نے نشے کی حالت سے جونجتے اپنے پاس کھڑے مرد کا ہاتھ تھام لیا تھا۔ 

پیغام سچ میں ایک پل کے لیے سانس نہیں لے پایا۔ وہ شاک میں کھڑے ڈوبتے دل کے ساتھ گردن گھوما کر اسے دیکھنے لگا۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ وہ انجان لڑکی اسے کیسے جانتی ہے۔ عرشیہ یہ تو نہیں جانتی تھی کہ وہ ہولیہ پیغام ہی ہے یا نہیں وہ تو در حقیقت آر جے پیغام کو یاد کر رہی تھی اور ماحول سے انجان تصور میں بنتے عکس کو پیغام کا نام دے رہی تھی جبکہ وہ اس کے سامنے ہی کھڑا تھا۔ 

"شاید درانی صاحب کے آفس میں دیکھا ہو۔۔۔۔" اس نے از خود سوچا اور اپنا ہاتھ کھینچ کر چھڑایا پر تھوڑے آگے جا کر رک گیا۔ 

"پتا نہیں کوئی لینے آئے بھی یا نہیں۔۔۔۔ ایسے سنسان روڈ پر اکیلے چھوڑ کر نہیں جا سکتا۔۔۔۔" وہ دل ہی دل میں سوچتے گردن موڑ کر عرشیہ کو دیکھنے لگا۔ 

اسے اس حالت میں دیکھ کر افسوس کرتے سر کو جھٹک کر مقابل فٹ پات پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا۔ بیس منٹ بعد ایک سفید مرسیڈیز کار آتی نظر آئی۔ کار کے ہیڈ لائٹس کی روشنی دیکھ کر پیغام اٹھا اور درخت کے آوٹ میں چھپ کر کھڑا ہوگیا۔ وہ سیرت بیگم کی نظروں میں نہیں آنا چاہتا تھا۔ انہوں نے اپنی کار سے اتر کر آس پاس دیکھا ضرور تھا مگر کسی کو نا پا کر ڈرائیور کی مدد سے عرشیہ کو سہارا دیا اور اپنی کار میں بیٹھا کر لیں گئیں۔ 
ان کی کار نظروں سے اوجھل ہونے تک پیغام وہی رہا اور پھر اپنے گھر کے سمت روانہ ہوگیا۔ اس ایک ملاقات نے بے ہوش عرشیہ کا چہرا اس کے دماغ میں چسپاں کر دیا تھا لیکن اس ملاقات کا نتیجہ بہت برا ہونے والا تھا۔ 

               ◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇   

رات کی تاریکی میں پیغام بنا آواز کئے گھر میں داخل ہوا تو امی کو ٹارچ کی روشنی میں مصلحے پر بیٹھے پایا۔ وہ تہجد کی نماز پڑھ کر اسی جگہ بیٹھے ذکر الہی میں مصروف تھیں۔

"پیغام۔۔۔۔ بہت دیر کر دی آنے میں۔۔۔۔۔ اورہان کے گھر پر سب ٹھیک تو تھا۔۔۔۔۔" امی نے تسبیح روک کر سر اٹھایا اور پیغام کو دیکھنے لگی۔ 

"جی امی۔۔۔۔ اورہان کے گھر پر سب ٹھیک تھا۔۔۔۔۔ بس راستے میں کسی اور کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا تو مدد کرنے رک گیا۔۔۔۔۔" پیغام نے فرش پر امی کے پاس بیٹھتے ان کی گود میں سر رکھ دیا۔ 

"بہت اچھا کیا۔۔۔ اللہ سب مسلمانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔۔" امی نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرتے دعا دی۔ 

پیغام آنکھیں موندھے امی کا لمس محسوس کرتے پُر سکون ہوگیا۔ 

"زیادہ چوٹ تو نہیں آئی تھی۔۔۔۔۔ ہسپتال پہنچایا۔۔۔۔۔" امی نے مزید تفصیل پوچھی تو وہ اٹھ بیٹھا۔ 

"نہیں امی۔۔۔۔ اس کے گھر والے لینے آگئے تھے۔۔۔۔ وہ ہسپتال لے گئے ہوں گے۔۔۔۔۔ چلیئے میں چینج کر کے آتا ہوں۔۔۔۔۔ " اس نے امی کو مسکان سے نوازا اور واشروم کے سمت بڑھ گیا۔

فجر ادا کر کے دس منٹ بعد سلیپنگ ڈریس میں ملبوس چارپائی پر سیدھا لیٹے پیروں کی کھینچی بنائے ایکسیڈنٹ کے متعلق سوچنے لگا۔ اول تو اسے عرشیہ کے حالت پر افسوس ہورہا تھا مگر اب تسلی سے سوچنے پر اسے اس پر شدید غصہ آنے لگا اور اس کے لیے ایک ہی لقب منتخب کر سکا۔ 

"بگڑی ہوئی امیر زادی۔۔۔۔۔ " اس نے منہ بھسورتے ہونہہ کیا اور کروٹ بدل کر سو گیا۔ 

آنے والے کل سے بے خبر اس کے دل و دماغ پر عرشیہ کا بہت برا امپریشن پڑا تھا۔ 

                  ◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

عرشیہ نیند سے اٹھی تو اس کے سر میں شدید درد ہورہا تھا۔ اٹھ کر بیٹھتے ہوئے اس نے پیشانی کو چھوا تو کراہ اٹھی۔ اس کے بائیں آئی برو کے اوپر سنی پلاسٹ لگا ہوا تھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پر پڑا موبائل اٹھایا اور اپنے سر پر لگے چوٹ کی نوعیت تعین کی۔ 

دروازے پر دستک دے کر نینی لیمو پانی کا گلاس لیئے اندر داخل ہوئی۔ 

"اتنا کیوں پیتی ہو جب سنبھالی نہیں جاتی۔۔۔۔" انہوں نے خفگی کا اظہار کیا۔ 

عرشیہ نے ان کا سوال ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا اور جھپٹ کر لیمو پانی کا گلاس لے لیا۔ 

"میرا سوٹ تیار کرواو۔۔۔۔۔ مجھے آفس جانا ہے۔۔۔۔" لیمو پانی کا گھونٹ بھرتے ہوئے ہدایت دی۔ 

"تم اس حالت میں آفس جاو گی۔۔۔۔ بڑے صاحب سے کیا کہو گی۔۔۔۔" نینی حیران ہوئی تھی۔ 

"سچ کہو گی۔۔۔۔ ڈرنک کر کے ڈرائیو کر رہی تھی تو ایکسیڈنٹ ہوگیا۔۔۔۔۔" عرشیہ نے ناک سے مکھی اڑائی اور اٹھ کر واشروم چلی گئی۔ 

"نا جانے یہ کب سدھرے گی۔۔۔۔" نینی نے لب بھینجے لمبا سانس خارج کیا اور وارڈراب کے سمت بڑھ گئی۔ 

آج درانی ہارڈووڈ کمپنی کے مالکن کے طور پر اس کا پہلا دن تھا۔ وہ ڈارک براون کلر کے تھری پیس سوٹ میں ملبوس بالوں کی اونچی پونی بنائے۔ بلیک ہیل پہنے اور ہلکا میک اپ کئے بزنس وومین کے انداز میں سربراہی سیٹ پر بیٹھے کانفرنس روم میں موجود اسٹاف ممبران کو باری باری سنتی رہی۔ ہر ایک اپنا نام اور عہدہ بتا کر متعارف ہوتا گیا۔

افتخار عارف اس کا چیف اسٹاف تھا۔ سب کا تعارف سننے کے بعد اس نے اب تک صنعتی پیداوار اور مصنوعات پر میٹنگ رکھی۔ اس میٹنگ میں پریزنٹر افتخار عارف ہی رہا۔ اس کی تفصیلات سے عرشیہ کافی محظوظ رہی۔ 

"ریلی امپریسنگ افتخار۔۔۔۔ مجھے آپ سے آگے بھی اسی حسن کارگردگی کی امید ہے۔۔۔۔" میٹنگ کے بعد اس نے افتخار سے مصافحہ کرتے ہوئے سراہا۔ 

"تھینکیو میم۔۔۔۔ میں ہمیشہ اس کمپنی کے خدمات میں پیش قدم رہوں گا۔۔۔۔" افتخار نے پذیرائی وصول کرتے ہوئے سر کو خم دیا۔ 

کچھ دیر مزید بزنس پر مباحثہ کر کے دونوں اپنے اپنے کیبن میں چلیں گئے۔ 

عرشیہ کا کیبن دوسری منزل کا سب سے بڑا کمرا تھا۔ دو طرف خوبصورت دیزائن کردہ دیوار اور دو طرف قد آور شیشے جس سے سڑک کا منظر صاف نظر آتا تھا۔ وسطی دیوار پر بڑی سی لائبریری نما الماری تھی جس میں نواع و اقسام کی بزنس اور ہارڈووڈ پروڈکٹس کے متعلق کتابوں کے ساتھ ساتھ کچھ شعر و شاعری اور ناولز ترتیب دیے گئے تھے۔ اس کے سامنے بڑا سا ٹیبل تھا جس کے ایک طرف کمپنی ایم ڈی کی سیٹ اور مقابل انویسٹرز کے لیے نشستیں جابجا تھیں۔ اے سی کی خنکی اور فانوس کے زرد روشنی سے کیبن عالی شان منظر پیش کر رہا تھا۔ 
عرشیہ شان سے چلتے ہوئے آئی اور ایم ڈی کی آرام دہ سیٹ پر جا بیٹھی اور سیٹ کی پشت سے ٹیک لگائیں آنکھیں موندھے لمبا سانس لے کر کامیابی کی مہک محسوس کی۔ 
اس وقت اسے اپنا آپ شاہی ملکہ سے مماثلت کرتے محسوس ہورہا تھا۔ یہ احساس وہ زندگی بھر کرنا چاہتی تھی مگر کیا اس کا یہ خواب پورا ہوتا یہ تو وقت ہی بتانے والا تھا۔ 

              ◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

عید کے چھوتے دن ایف ایم 88 کے جانب سے ایکسپو سینٹر میں لائف شو کا انعقاد کیا گیا تھا۔ اس لائف شو میں کئی گلوکار مدعو تھے۔ فلک شبیر، عاطف اسلم، آئمہ بیگ کے ہمراہ دیگر چھوٹے بڑے سنگرز نے اپنے سنگنگ کے جوہر دکھائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ فولک ڈانس اور آتش بازی کر کے شائقین کو انٹرٹین کیا گیا۔
رقص و بازی دیکھتے ہوئے لوگوں کا ہجوم کھانے پینے کے اشیا سے بھی لطف اندوز ہو رہیں تھے۔ چونکہ یہ شو ایف ایم 88 کے جانب سے منعقد ہوا تھا اس لیے محض آوازوں سے جانے مانے آر جیز کی جھلک دیکھنے لا تعداد ریڈیو سامعین آئیں ہوئے تھے۔ اس تعداد میں عروج اور سمعاویہ بھی شامل تھیں۔ وہ دونوں پاستہ کھاتے گانے سننے میں مگن تھے جب عروج کے نمبر پر عرشیہ کی کال آنے لگی۔

"کہاں ہو تم دونوں۔۔۔۔" اس نے عروج کے پس منظر میں گانے اور ہجوم کا شور سن کر استفسار کیا۔ 

"ہم ایکسپو سینٹر آئیں ہیں۔۔۔۔۔ ایف ایم 88 کا شو ہے۔۔۔۔ بہت سارے آرجیز اور سنگرز آئیں ہیں۔۔۔۔۔" عروج نے تقریبا چلاتے ہوئے جواب دیا۔ 

"آرجیز۔۔۔۔ کہیں۔۔۔۔۔ پیغام بھی آیا ہوا تو۔۔۔۔۔" عرشیہ نے دل ہی دل میں سوچا تھا۔ 

"اوکے۔۔۔۔ میں تو آفس ورک میں بزی ہوں۔۔۔۔ چلو تم لوگ انجوائے کرو۔۔۔۔" عرشیہ خود کو بہت ہی ہائی کلاس دکھانے بہانہ بنا گئی اور عجلت میں تیار ہونے بھاگی۔ 

عروج نے موبائل فون کان سے ہٹا کر بے یقینی سے دیکھا اور شانے اچکا کر پھر سے انجوائے کرنے لگ گئیں۔ قریب آدھ گھنٹے بعد عرشیہ جینز اور پھول دار شارٹ فراک پہنے بالوں کو کیچر میں جکڑے اسنیکرز پہنے ایکسپو سینٹر کے گیٹ پر کھڑی تھی۔ اس کے ہمراہ افتخار بھی موجود تھا جسے عرشیہ نے فورا سے بیشتر وہاں بلایا تھا۔ 

"میم اینٹری بند ہوگئی ہیں۔۔۔۔ سینٹر فل ہے۔۔۔۔" گیٹ پر تعینات گارڈز نے بازو دراز کر کے اسے روکا۔ 

"اوکے صرف میں ہی اندر جاوں گی۔۔۔۔ یہ یہی رہے گا۔۔۔۔" عرشیہ نے بات ان سنی کرتے افتخار کے سمت اشارہ کیا۔ 

"میم۔۔۔۔ ایک بندے کی بھی جگہ نہیں ہیں۔۔۔۔۔ آپ دونوں میں سے کوئی بھی اندر نہیں جا سکتا۔۔۔۔" گارڈ نے دوبارہ زور دیتے اس کی تصحیح کی۔ 

"عرشیہ درانی کو نا سننے کی عادت نہیں ہے۔۔۔۔۔ " مغرور مسکان کے ساتھ کہتے اس نے اپنے پرس سے پیسوں کا بنڈل نکال کر گارڈ کے آگے کیا۔ 

اتنے پیسے دیکھ کر گارڈ کی آنکھیں چمک گئی۔ دل میں لالچ ابھرنے لگا مگر بظاہر خود کو کمپوز رکھے دوسرے گارڈ کو دیکھا۔ اس کی حالت بھی یکساں تھیں۔

"میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔۔۔۔ جلدی کرو۔۔۔۔۔" اس نے دوسرا بنڈل نکال کر دوسرے گارڈ کو پیش کیا۔ 

افتخار آنکھیں چھوٹی کئے اسے مشاہدہ کر رہا تھا۔ بلاآخر دونوں گارڈز کا ضبط ڈگمگا گیا اور پیسے لیں کر اسے جانے کی اجازت دے دی۔ عرشیہ خوشی سے سرشار ہوتے اندر کو لپکی۔ اس کی نظریں اسٹیج پر اور کان اسپیکر پر جمے ہوئے تھے۔ اس وقت کوئی دوسرا آرجے شائقین سے گفتگو کر رہا تھا۔ رش کو چیرتے وہ دھکم پیل کرتے سب سے پہلی قطار میں آگئی۔ اسے اس بات سے غرض نہیں تھا کہ عروج اور سمعاویہ کہاں ہیں۔ کون اس کے بارے میں کیا بات کر رہا ہے۔ وہ تو بس پیغام کا دیدار پانے آئی تھی۔ 

دوسری طرف اسٹیج کے پیچھے اورہان اور پیغام سارے انتظامات دیکھ رہیں تھے۔ 

"پکا تمہیں اسٹیج پر نہیں جانا۔۔۔۔۔ " اورہان نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے آخری مرتبہ تائید چاہی۔ 

"مجھے لائم لائٹ میں نہیں آنا۔۔۔۔۔ " پیغام نے نفی میں سر ہلایا۔ 

"ہمممم مین لائٹ آن نہیں کریں گے۔۔۔۔۔۔ تمہارا صرف سایہ آئے گا۔۔۔۔۔ شو کی ریٹنگ بڑھ جائیں گی یار۔۔۔۔ یہ کراوڈ تمہیں ہی تو دیکھنے آئی ہیں۔۔۔۔۔ " اورہان نے آنکھ کا کونا دبا کر اس کا کندھا تھپتھپایا۔ 

عرشیہ بے صبری سے اگلے اناونسمنٹ کی منتظر تھی۔ ہوسٹ اگلے آرجے کے بارے میں بتانے سے پہلے بہت وقت لے رہا تھا جس سے اس کی تڑپ بڑھنے لگی۔ وہ پیر پٹخ کر بار بار اپنے اسمارٹ واچ پر ٹائم دیکھتی اور سرد سانس خارج کرتی۔ 

"اور آپ سب کا انتظار ختم ہوا۔۔۔۔۔" ہوسٹ مائک پر اونچا بولا تھا۔ 

فضا میں خوشی کے مارے چیخ و پکار گونج اٹھی۔ تالیوں اور سیٹھیوں کے شور سے ہوسٹ کو بولنے کا موقع ہی نا ملا۔

کسی روز تم سے ملاقات ہوگی۔
میری جان اس دن میرے ساتھ ہوگی۔
مگر کب نا جانے یہ برسات ہوگی
میرا دل ہے پیاسا میرا دل اکیلا
زرا تصویر سے تو نکل کے سامنے آ
میری محبوبہ۔۔۔۔ میری محبونہ۔۔۔۔

"پیغام۔۔۔۔۔۔ پیغام۔۔۔۔۔۔" ساری ہجوم ایک آواز ہو کر اس کا نام پکارنے لگیں۔ 

تقریبا سب ہی ریڈیو سامعین کو پیغام کے گانوں کی پسند معلوم تھی اس لیے یہ گانا بجتے ہی سب کو اندازہ ہوگیا کہ وہ اسٹیج پر آنے والا ہے۔ 

نہیں یاد کب سے مگر میں ہوں جب سے
میرے دل میں تیری محبت ہے تب سے
میں شاعر ہوں تیرا تو میری غزل ہے
بڑی بے قراری مجھے آج کل ہے
بڑی بے قراری مجھے آج کل ہے

گانے کے بیچ میں پیغام اشعار پڑھتے اسٹیج پر آیا۔ 

نہ جی بھر کے دیکھا
نہ کچھ بات کی۔۔
نہ جی بھر کے دیکھا 
نہ کچھ بات کی۔۔ 
بڑی آرزو تھی ملاقات کی

السلام علیکم پاکستااااااان۔۔

اس نے سر پر بلیک پی کیپ پہنی ہوئی تھی اور چہرے کو بلیک ماسک لگا کر ڈھکا ہوا تھا۔ 

شائقین میں اسے سراہتے نعرے بلند ہوگئے۔ سب میں خوشی کی نئی لہر دوڑ گئی۔ عرشیہ اسٹیج کے کافی قریب تھی مگر چونکہ سپاٹ لائٹ بند تھی اور پیغام نے پی کیپ اور ماسک لگا کر اپنی پہچان خفیہ رکھی تھی اس لیے وہ اس کا چہرہ تصحیح نہیں کر سکی۔ 

رنجش ہی سہی دل دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑنے کے لیے آ۔۔۔

"کیسے ہیں آپ سب۔۔۔۔" اپنے لائف پرفارمنس سے جادو بکھیرتے اس نے مائک آڈینس کے سمت کیا۔ 

"ہووووووووو۔۔۔۔۔۔" اس کے جواب میں آڈینس نے صدا بلند کی۔ 

"اس خوبصورت شام میں آپ سب کے دل پسند آرجے پیغام کے جانب سے خوبصورت سا پیغام۔۔۔۔۔ 

خوش نصیب ہوتے ہیں وہ لوگ جن کو بات کرنے کے لیے کچھ خاص لوگ میسر ہوتے ہیں، سننے والے ، لہجہ پڑھ کر دکھ کو سمجھنے والے، اور ان دکھوں کا مداوا کرنے والے، مرہم بننے والے۔۔۔۔ آپ سب کی اتنی محبت کا بہت شکریہ۔ 

آخری بات مکمل کر کے وہ ہاتھ ہوا میں جھلاتے واپس اسٹیج سے اتر کر بیک اسٹیج چلا گیا۔ 

عرشیہ اسے رش میں غائب ہوتے دیکھ کر بے تاب ہونے لگی۔ وہ سب کو پرے کرتے اس کے پیچھے بھاگی۔ بیک اسٹیج پر بھی کارکنان کا رش لگا تھا۔ اس نے دیوانہ وار سامنے آتے مردوں میں نظر دوڑائی۔ اس کے ہاتھ جو بھی آتا گیا وہ اس کا گریبان پکڑ کر پیغام کا پوچھنے لگی۔ تین چار مردوں سے پوچھ گچھ کر کے اس نے ایکسپو سینٹر کے کارکن کو روک لیا۔ 

"آر جے پیغام کہاں ملے گے۔۔۔۔۔" اس نے اتنی مضبوطی سے اسے جکڑا کہ وہ گھبرا ہی گیا۔ 

"ایف ایم والے تو ابھی ابھی نکلے ہیں۔۔۔۔" اس کارکن لڑکے نے اپنا گریبان چھڑاتے ہوئے تیزی سے جواب دیا۔ 

عرشیہ نے اسے جھڑکا اور گیٹ کے جانب بھاگی۔ باہری راستے پر آنے جانے والے راہ گیروں کی قطار موجود تھیں۔ وہ سب کو ہٹاتے دھکم پیل کرتی یہاں گیٹ پر پہنچی اور وہاں اورہان اور اس کی ٹیم کی دو گاڑیاں آگے پیچھے تیزی سے مین روڈ پر اوجھل ہوتی نظر آئی۔ 

"شیٹ۔۔۔۔" عرشیہ نے پیر پٹخ کر خلاء میں ہاتھ مارا۔ 

بھاگ بھاگ کر آنے سے اس کی سانس پھول چکی تھیں چہرا سرخ ہوگیا تھا مگر ساری محنت رائیگاں چلی گئی۔ پیغام جا چکا تھا۔ اسے دیکھنے کا ارمان، ارمان ہی رہ گیا۔ 

              ◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇◇

جاری ہے۔۔۔
NOTE: 
کیسی لگی آج کی قسط۔۔۔۔

Post a Comment

0 Comments