Amazon

Ticker

6/recent/ticker-posts

بازاری چیزیں کھانےکے فواٸد

بازاری چیزیں کھانےکے فواٸد

آج کسی فیسبکی دوست کے وال پر زیرِ نظر خطرناک تصویر دیکھی گٸی یہ کوٸی بچوں کے نوڈلز یا ہوٹلوں میں بناۓ جانے والی چُومن کی تصویر نہیں ہیں بلکہ  اس تصویر کے متعلق موصوف نے لکھا تھا کہ جو کیڑے اس ٹرے (برتن) میں نظر آرہی ہیں وہ  آر ایچ کیو ہسپتال لاۓ گٸے کسی مریض بچے کے پیٹ سے نکالا گیا ہے جنہیں پیٹ میں بار بار درد کی شکایت رہتا تھا ۔ اتنی ذیادہ تعداد میں کیڑوں کی موجودگی پر متعلقہ ڈاکٹر نے والدین کو بلا کر بچے کو کھلاۓ جانے والے خوراک کے بارے پوچھا تو اُنکا جواب تھا کہ بچہ گھر میں پکا ہوا کھانا کم اور بازار سے خریدا گیا پاپڑ ذیادہ کھایا کرتا تھا، ساتھ میں دکانوں پر موجود غیر معیاری جوس بھی پیا کرتے تھے ۔ یہی عموماً بچے کی خوراک تھی ۔ جس پر ڈاکٹروں نے انہیں آٸندہ سے بچے کو پاپڑ اور غیر معیاری اشیا اور جوسز کے استعمال سے دُور رکھنے کی سختی سے ہدایت کیا ہے ۔ یہ ہدایت تمام والدین کیلیے ہیں ۔
یہی وجہ تھی کہ راقم نے اپنے چند دوستوں کو ساتھ لے کر تحصیلدار آفس میں پاپڑ کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی کیلیے درخواست جمع کیا تھا ۔ ہم تحصیل آفس کریس کے تمام سٹاف بالخصوص تحصیلدار جناب عبدالرحیم یوگوی صاحب  کے نہایت مشکور ہیں جنہوں نے ہم جیسے معاشرے کے عام افراد کے درخواست پر خود مارکیٹ کا وزٹ کیا اور دکانداروں سے الگ الگ ملاقات کرکے اس زہر ہلاہل کے نقصانات سے آگاہ کرتے ہوۓ دکانوں پر اسکی خرید و فروخت سے منع فرمایا ۔ جس کیلیے انتظامیہ خراج تحسین کے مستحق ہیں ۔
ہم علاقہ کریس کے تمام کاروباری حضرات بالخصوص دکانداروں کا بھی تہہ دل سے شکریہ ادا کرتے ہیں جنہوں نے نا صرف اس مہلک چیز کی خرید و فروخت کو چھوڑ دیا بلکہ انتظامیہ کے ساتھ مکمل تعاون کرتے ہوۓ علاقے کے ہمدرد اور باشعور فرد ہونے کا اعلٰی ثبوت پیش کیا ۔ ہم اتحاد ٹریول کریس کے ڈراٸیور حضرات کے بھی مشکور ہیں جنہوں نے عوام اور انتظامیہ کیساتھ مکمل تعاون کرتے ہوۓ پاپڑ کی سپلاٸی کو روک دیا ۔ کوٸی کام ناممکن نہیں ہوتا ہے شرط یہ ہے معاشرے کا ہر فرد اپنی اپنی بساط کیمطابق علاقے کی بہتری کیلیے کیے جانے والے اقدامات میں اپنا کردار ادا کرے اور اپنے حصے کا چراغ شاملِ روشن کریں ۔۔۔
آج علاقہ کریس کے کسی بھی دکان پر بچوں کے خاموش قاتل پاپڑ جیسی لعنت چیز نظر نہیں آتی ہیں ، کچھ دنوں پہلے میں کسی دکان پر بیٹھا تھا ، ایک نا معلوم صاحب وہاں آۓ اور پاپڑ کا پوچھا ، دکاندار نے اُن سے معذرت کیا تو وہ شکریہ کہہ کر باہر نکل گٸے ۔ میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب پندرہ بیس منٹ بعد موصوف دوبارہ دکان میں داخل ہوۓ اور کہا میں ہسپتال چوک تک جاکے آیا ہوں  کسی بھی دکان والے کے پاس پاپڑ موجود  نہیں ہے ۔ یہی ہم سب کی خواہش تھی جسکی تکمیل اللہ کے فضل ،  انتظامیہ کی مہربانی ، عوام کی شعور اور دکانداروں کے تعاون سے ممکن ہوا ۔
اللہ تعالٰی ہمارے اندر  اپنے بچوں کی بہتر تعلیم و تربیت اور انکی صحت کا اسی طرح خیال جاری رکھنے کا جذبہ یونہی برقرار رہے ۔ آمین

Post a Comment

0 Comments